حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
- Admin
- Sep 30, 2021
سیّدالمشائخ ، استاذ الصوفیاحضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تیسری صدی ہجری کے اوائل میں عراق کے عروس البلاد شہر "بغداد "میں ہوئی۔ اربابِ سیرو تاریخ نے آپؒ کے سالِ ولادت کے بارے میں اختلاف کیا ہے ۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپؒ کی ولادت 210ہجری تا 220ہجری کے درمیان ہوئی۔
جیسا کہ امام ذہبی ؒکہتے ہیں، آپ ؒکی پیدائش 220ہجری کے کچھ ہی بعد ہوئی۔
آپؒ ولی کامل اور صاحب طریقت بزرگ تھے۔آپؒ ماہر شریعت اور منبع فیوض و برکات تھے۔ آپؒ کا لقب قواریری ہے اور زجاج اور خزار کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ قواریری اورزجاج اِس اِعتبار سے کہا جاتا تھا کہ آپؒ کے والد ِگرامی شیشہ فروش تھے۔ (نفحات الانسان ص۰۸ فارسی)
آپؒ کے خطابات و القابات میں "لسان القوم "بھی ملتا ہے۔حضرت جنید بغدادیؒ نام ور صوفی بزرگ حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور مرید تھے۔بیعتِ خلافت اپنے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ سے حاصل فرمائی۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے وقت کے شاہی پہلوان تھے۔آپؒ کا خاندانی نام جنید،والد محترم کا نام محمؒد اور دا دا کا نام بھی جنید ؒتھا۔ دادا کے نام پر آپ ؒکا نام رکھا گیا۔ابوالقاسم آپؒ کی کنیت تھی ۔ آپؒ کے آباو اجداد کا تعلق نہاوند سے تھا۔
آپؒ بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا، اسی وجہ سے بغدادی کہلائے۔حضرت مخدوم علی بن عثمان ہجویریؒ نےآپ ؒکا اسم گرامی ان الفاظ میں تحریر کیا ہے ۔
شیخ المشائخ ،اہل طریقت، امام الائمہ ابوالقاسم جنید بن محمد بن جنید بغدادیؒ ، آپؒ کی کنیت ابو القاسم ،لقب سید الطائفہ تھا۔ آپ ؒتیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطۂ عروج پر تھے اور مامون الرشید کے مشاغل دینی کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے باکمال علماء وفضلاء جمع تھے۔ آپ کی
تعلیم و تربیت آپؒ کے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ نے کی۔ شیخ سرّی سقطیؒ چاہتے تھے کہ آپؒ فقر و سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ایک زبردست عالم دین اور فقیہ بھی بنیں ۔چنانچہ بیس سال کی عمر میں حضرت جنید بغدادیؒ ا یک اچھے فقیہ بنے اور فتوے بھی لکھنے لگے۔ علوم ِدین میں تکمیل پانے کے بعد آپؒ نے زہدوعبادت میں رغبت حاصل کی۔اس کے ساتھ دنیا کے کاروبارمیں مصروف رہے۔شیشے کا کاروبار آپؒ نے ورثے میں پایا تھا،یہی کاروبار شروع کیا۔
آپ ؒریاضت و مجاہدے کرتے اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہتے،اِن تمام حدود شریعت کو سامنے رکھ کر فرمایا کرتے کہ تصوف قرآن وسنت کاترجمان ہے ۔جو شخص قرآن وحدیث اورسنت سے واقف نہیں، وہ پیروی کے لائق نہیں۔ ایک وقت آیا کہ حضرت شیخ سرّی سقطیؒ نے اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو روحانیت کے اتنے بڑے مرتبے پر پہنچا دیا کہ حضرت سری سقطیؒ جیسے کامل ترین بزرگ آپؒ سے رائے اور صلاح مشورہ لینے لگے۔
آپؒ اہل ظواہر اور اَربابِ قلب میں مقبول تھے۔ علوم کے تمام فنون میں کامل اور اُصول و فروغ ومعاملات وعبادات میں مفتیء اعظم اور اِمام اصحابِ ثوری تھے۔ تمام اہلِ طریقت آپؒ کی اِمامت پر متفق ہیں اور کسی مدعی علم وتصوف کو آپ پر اِعتراض واِعراض نہیں ہے۔ (کشف المحجوب ص۷۱۱‘ فارسی)
حضرت ابو العباس عطاؒ فرماتے ہیں حضرت جنید بغدادی علم(معرفت) میں ہمارے اِمام‘مرجع اور پیشوا ہیں۔ (نفحات الانص۰۸ فارسی)
تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے،اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادیؒ کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادیؒ کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپؒ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے۔اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اور اواخر میں وصال باکمال ہوا ۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک جس بندے کو جس کام کے لیے پیدا فرماتا ہے، وہ کام اس کے لیے آسان فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت جنید بغدادیؒ سے تدوین تصوف کی عظیم خدمت لینا تھی،اس لئے انہیں ایسے خاندان اور گھرانے میں پیدا فرمایا،جس کے افراد تقویٰ و طہارت ، علم و عمل کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ ابتدا سے ہی نہایت ذہین و فطین تھے۔ بہت قلیل عرصے میں ہی آپؒ نےتمام علوم ِعقلیہ و نقلیہ پر مہارتِ تامہ حاصل کرلی تھی۔ اکثر اپنے ماموں حضرت شیخ سری سقطی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض ِصحبت سے مستفیض ہوا کرتے، اور فقہ کےمشہور شافعی فقیہ شیخ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبیؒ(تلمیذ حضرت امام شافعیؒ)سے حاصل کی جو بغداد کے اَجِلہ فقہاء و مشاہیر علماء سے تھے۔ ان سے فقہ شافعی میں کمال حاصل کیا، اور ان کی زیر نگرانی فتویٰ جاری کیا۔ اُس وقت آپؒ کی عمر بیس سال تھی۔ جوانی میں ہی آپؒ کے علم کا چرچا عام ہوگیا تھا۔ حضرت سری سقطیؒ، شیخ ابو ثور ابراہیمؒ، شیخ حارث محاسبیؒ، محمد بن ابراہیم بغدادیؒ، ابو جعفر محمد بن علی قصابؒ، بشر بن حارثؒ، کے علاوہ آپ ؒنے ایک سو بیس سے زائد علماء و شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ فرمایا۔
نیز شیخ ابوبکر کسائی رحمہ اللہ علیہ اور آپؒ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مراسلہ(خط و کتابت) ہوا تھا ۔آپ ؒنے سب کے جواب لکھے۔کسائی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔
*(شریف التواریخ،ج1،ص530)*
میرے پیر حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے دعا دی کہاا ﷲتعالیٰ تمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:
علمنا مضبوط بالكتاب والسنة من لم يحفظ الكتاب ، ويكتب الحديث ، ولم يتفقه لا يقتدى بہ۔
’’ یعنی جس نے نہ قرآن یاد کیا نہ حدیث لکھی یعنی جو علم شریعت سے آگاہ نہیں طریقت میں اس کی اقتداء نہ کریں اور اسے اپنا پیر نہ بنائیں کیونکہ ہمارا یہ علمِ طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے‘‘۔
نیز فرمایا:
خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول ﷲﷺکے نشانِ قدم (سنت) کی پیروی کرے۔
*(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص53)*
حضرت سری سقطیؒ کے دستِ حق پر باقاعدہ بیعت کی ۔
حضرت شیخ فرید الدین عطا رؒ آپؒ کے مجاہدات بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ اہل تصوف کے پیشوا تھے۔
وہ آپؒ کو سید الطائفہ ”گروہ صوفیاءکے سردار “ کہتے اور طاؤس العلماءاور سلطان المحققین لکھتے تھے۔ آپؒ شریعت اور حقیقت کی انتہا پر تھے۔ زہد و عشق میں بے نظیر تھے اور طریقت میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے ۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃاللہ علیہ کی ذاتِ بابرکت علماء و فقہاء شعراء و ادباء صوفیاء و اولیاء کے درمیان آفتاب روشن کی طرح ہے ۔ جس کی روشنی سے ہرایک مستفید ہوتا ہے۔حضرت جنید بغدادی ؒکے لئے ایک بڑا خراجِ عقیدت تو یہ ہے کہ تصوف کے تمام سلاسل نے بالاتفاق اُنہیں اپنا پیشوا تسلیم کیا۔ہر عہدکے صوفیاء اپنا انتساب انہی کی طرف کرتے رہے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ تصوف کے سلاسل اپنے اوراد میں باہم مختلف ہیں ،لیکن اپنے نسب میں سب حضرت جنیدؒ پر متفق ہیں۔ تصوف کے سلاسل حضرت جنیدؒ کے واسطے ہی سے اوپر کو پہنچتے ہیں ۔ حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ نے جن دس سلسلوں کو حق پر قائم قرار دیا ہے، اُن میں سے ایک سلسلہ جنیدیہ جس کے مؤسس حضرت جنیدؒ ہی ہیں اور باقی نوسلسلوں میں سے پانچ ایسے ہیں، جن کے بانیوں کا حضرت جنید ؒسے گہرا قریبی اور روحانی تعلق ہے ۔
حضرت جنید بغدادیؒ ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟آپ ؒنے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتا ہے۔
سخاوت،رضا،صبر،خاموشی،غربت،سیاحت،گدڑی اور فقر۔
یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء علیہم السلام میں سے ہیں۔
٭…سخاوت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے ، کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔
٭…صبر حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف سے ہے،کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔
٭…خاموشی حضرت زکریا علیہ السلام سے ہے، کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔
٭…غربت حضرت یحییٰ علیہ السلام سے ہے،کہ آپ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔
٭…سیاحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہے، کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔
٭…گدڑی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہے،کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔
٭… فقر سید دو عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے، لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقے میں رہوں۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔
1۔
آپ ؒفرماتے ہیں‘ ایک بار میرے دِل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ابلیس لعین کو دیکھوں ۔حضرت جنید بغدادی ؒفرماتے ہیں:
ایک روز میں مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک بوڑھا آیا جو دُور سے میری طرف دیکھ رہا تھا جب میں نے اُس کو دیکھا تو میں نے اپنے دل میں وحشت کا اَثر محسوس کیا۔جب وہ میرے نزدیک آیا تو میں نے پوچھا ‘اے بوڑھے توکون ہے ؟
کہ میری نظر اثروحشت سے تجھے دیکھنے کا تاب نہیں لاتی اور تیری نحوست کی ہیبت کو میرا دِل برداشت نہیں کرتا ۔کہنے لگا،میں وہی ہوں جس کو دیکھنے کی تیرے دِل میں خواہش تھی ۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں‘ میں نے اُس سے پوچھا! کون سی چیز تھی جس نے تجھے حضرت سیّدنا آدم کو سجدہ کرنے سے باز رکھا؟ کہنے لگا اے جنید! آپ کا یہ خیال ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کر لیتا۔حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں میں اُس کے کلام سے حیران ہوا اور اُس کا کلام مجھ پر اَثر کرنے کو تھا کہ مجھے اِلہام ہوا ۔اے جنید!اِس کو کہہ دو تو جھوٹ بولتا ہے اگر توبندہ تھا تو ربِّ ذوالجلال والاکرام کے حکم سے باہر نہ ہوتا اور اُس کی نہی سے تقرب نہ کرتا۔شیطان نے میرے دِل کی یہ آواز سن لی اور چیخ ماری اور بولا اللہ کی قسم تو نے مجھے جلا ڈالا اور نظر سے غائب ہوگیا۔(کشف المحجوب ص۸۱۱‘فارسی)
یہ حکایت آپ ؒکی عصمت کے تحفظ پر دلیل ہے ۔اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی خود نگرانی فرماتا ہے اور ہر حالت میں مکرہائے شیطان سے محفوظ رکھتا ہے۔
2۔
ایک مرتبہ ایک مرید کے دل میں یہ اِعتقاد پیدا ہوا کہ میں کسی درجہ پر پہنچ چکا ہوں۔اُس نے حضرت جنید بغدادی ؒسے کچھ اِعراض کیا۔ ایک دِن وہ آپ ؒکی خدمت ِ عالیہ میں حاضر ہوا کہ تجربہ کرے اور دیکھے کہ میرا خیال آپؒ پر منکشف ہوا ہے یانہیں۔ حضرت جنید بغدادی ؒنورِ فراست سے اُس کی حالت ملاحظہ فرما رہے تھے۔ اُس نے آپ ؒسے سوال کیا تو حضرت جنید بغدادی ؒنے فرمایا۔ جواب عبارتی خواہی یا معنوی۔ اَلفاظ اور عبارت میں جواب چاہتا ہے یا حقیقت معنی میں‘‘۔اُ س نے کہا دونوں طرح جواب اِرشاد فرما دیں۔آپ ؒنے فرمایا: ’’عبارتی جواب تو یہ ہے اگر میرا تجربہ کرنے کی بجائے اپنا تجربہ کر لیتا تو تو میرے تجربے کا محتاج نہ ہوتا اور اِس جگہ تجربہ کی غرض سے نہ آتا اور معنوی جواب یہ ہے کہ میں نے تجھے منصبِ ولایت سے معزول کیا۔
مرید کا چہرہ سیاہ ہو گیا اور وہ چیخنے لگا اور پکارنے لگا کہ حضور راحت ِیقین میرے دل سے جاتی رہی ہے۔ توبہ کرنے لگا اور پہلی بکواس سے ہاتھ اُٹھایا۔ اُس وقت حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا:
تو نہیں جانتا کہ اللہ کے ولی والیان اَسرار ہوتے ہیں۔ تجھ میں اُن کی ایک ضرب برداشت کرنے کی طاقت نہیں۔ پھر ایک پھونک اُس پر ماری وہ پھر اپنے پہلے درجے پر متمکن ہوا۔ اُس دن سے خاصانِ بارگاہ کے معاملات میں دخل دینے سے بھی توبہ کی اور پختہ عہد کیا۔ ( کشف المحجوب ص۹۱۱‘فارسی)
3۔
ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ لڑکپن کے اَیّام میں بچوں سے کھیل رہے تھے کہ آپؒ کے ماموں حضرت سری سقطی ؒنے فرمایا: اے لڑکے! شکر کے بار ے میں تم کیا کہتے ہو؟ آ پؒ نے جواباً عرض کیا شکر یہ ہے کہ اُس کے گناہوں پر مدد طلب نہ کرے۔(یعنی معصیت اور گناہوں سے بچے)۔ حضرت سری سقطی ؒفرماتے ہیں ‘میں اِس بات کو سن کر بہت ڈرنے لگا کہ تیری زبان سے جوبات نکلی ہے وہ تیرا حصّہ نہ بن جائے۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں:
میں ہمیشہ اِس بات سے لرزاں ترساں رہتا تھا کہ کہیں مجھ سے معصیت سرزد نہ ہو جائے کہ ایک دِن میں حضرت سری سقطی ؒکی خدمت پاک میں حاضر ہوا اور جو کچھ اُن کے لئے ضروری چیزیں ہو سکتی تھیں وہ لے گیا۔ حضرت سری سقطیؒ نے مجھے فرمایا: اے جنید! تیرے لئے خوش خبری ہے کہ میں نے حق تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ میرے جنید کو کسی طرح فلاح یاب اور توفیق یافتہ کی معرفت میرے پاس پہنچا دے۔
اور تم آگئے)۔ (نفحات الانس ص۰۸‘فارسی)
4۔
ایک دن حضرت جنید بغدادی ؒوعظ فرما رہے تھے کہ ایک کافر جوان جو مسلمانوں جیسا لباس پہنے ہوئے تھا مجلس میں آیا اور ایک کنارے پر کھڑا ہو گیا۔ بلند آواز سے کہنے لگا۔
اے شیخ! رسول کریم ؐکے اِس ارشادِ مبارک کا کیا معنی ہے۔
کہ مومن کی فراست اور دانائی سے ڈرو کہ بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے؟۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ اُس کا یہ سوال سن کر میں نے کچھ دیر کے لئے سر جھکایا بعد ازاں میں نے سراُٹھا کر اُس سے کہا‘ اے نوجوان! اِسلام قبول کر لے تیرے اِسلام لانے کا وقت آ چکا ہے۔
حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اِس واقعہ سے حضرت جنید بغدادیؒ کی ایک کرامت کا اِظہار ہے۔ اور میں کہتا ہوں اِس میں دو کرامتیں ہیں ایک تو اُس نوجوان کے کفر پر اِطلاع پانا۔دوسرے اِس بات سے آگاہ ہو جانا کہ وہ اِسی وقت اِسلام قبول کر لے گا۔ (نفحات الانس ص۱۸‘فارسی)
5۔
حضرت سری سقطی ؒکے زمانۂ حیات میں پیر بھائیوں نے حضرت جنید بغدادی ؒسے کہا کہ ہمیں وعظ فرمائیں تاکہ ہمارے دِل راحت وسکون پائیں۔ آپؒ نے صاف اِنکار کر دیا اور فرمایا:
جب تک میرے شیخ حضرت سری سقطی ؒجلوہ آرا مسندِ ظاہرہیں میں کوئی بات کہنے کا مجاز نہیں ۔ ایک رات سو رہے تھے کہ نبی کریمﷺ کا دیدار پاک نصیب ہوا۔ دیکھا کہ رسولِ کریم ﷺفرمارہے ہیں ،جنید! لوگوں کو وعظ کیا کرو‘ اِس لئے کہ تیرے بیان سے مخلوق کے دِلوں کو راحت حاصل ہوگی اور تیرے بیان سے خداوند تعالیٰ ایک عالم کی نجات فرمائے گا۔
جب بیدار ہوئے تو دِل میں خطرہ پیدا ہوا کہ میں اپنے مرشد کے درجہ سے اِتنا بلند ہو گیا ہو ں کہ رسولِ کریمﷺ نے مجھے حکم دعوت فرمایا ہے۔جب صبح ہوئی تو حضرت سری سقطی ؒنے ایک مرید کو بھیجا کہ جب حضرت جنید بغدادی ؒنماز سے سلام پھیریں تو اُن سے کہنا کہ ’’مریدوں کی درخواست تم نے رد کر دی اور اُنہیں کچھ نہ سنایا۔ مشائخ بغداد ؒنے سفارش کی اُسے بھی تم نے رَد کر دیا۔ میں نے پیغام بھیجا پھر آمادۂ وعظ نہ ہوئے۔ اب جب کہ رسولِ کریمﷺ کا حکم مبارک تمہیں ملا ہے‘ لہٰذا اِس حکم کی تعمیل کرو۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے یہ حکم سنتے ہی جواب میں عرض کیا کہ حضور میرے ذہن میں اَفضلیت کا خیال سمایا تھاوہ جاتا رہا ہے اور میں نے اَچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ حضرت سری سقطی ؒمیرے مرشد ِکامل‘ میرے تمام حالاتِ ظاہرو باطن سے مشرف ہیں اور آپؒ کا درجہ ہر حال میں میرے درجہ سے بلند ہے اور آپ یقینا میرے اسرار سے مطلع ہیں اور میں آپ کے منصب جلیل کی بلندی سے محض بے خبر ہوں اور اپنی اِس غلطی سے اِستغفار کرتا ہوں جو میں نے اِس خواب سے پہلے اپنے متعلق سوچا تھا۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں میں حضرت سری سقطیؒ کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا اور آپ ؒسے عرض کیا آپ ؒکیسے جانتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم ﷺکا خواب میں دیدارِ پاک کیا ہے؟ تو فرمایا میں نے خواب میں رب کا دیدارِ پاک کیا ہے،اور رب نے مجھے فرمایا کہ میں نے پیارے رسول کریم ﷺسے فرمایا کہ جنید کو فرمائیں وعظ کیا کرے تاکہ اہل بغداد کو فائدہ ہواوراُن کی مراد برآئے۔
(کشف المحجوب ص۸۱۱ ‘فارسی)
اِس حکایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیراں کامل ہر صورت میں مرید کے حالات پر واقف ہوتے ہیں۔ بچپن ہی سے آپؒ کو بلند مدارج حاصل ہوتے رہے۔
ایک مرتبہ مکتب سے واپسی پر دیکھا کہ آپ ؒکے والدِ گرامی برسرِراہ رورہے ہیں۔آپؒ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے رونے کا سبب یہ ہے کہ آج میں نے تمہارے ماموں کو زکوٰۃ میں سے کچھ درہم بھیجے تھے لیکن اُنہوں نے لینے سے اِنکار کر دیا اور آج مجھے یہ اِحساس ہورہا ہے کہ میں نے اپنی زندگی اَیسے مال کے حصول میں صَرف کر دی جس کو خدا کے دوست بھی پسند نہیں کرتے۔چنانچہ حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے والدِ گرامی سے وہ درہم لے کر اپنے ماموں کے یہاں پہنچ کر آواز دی اور جب اَندر سے پوچھا گیا کہ کون ہے؟تو آپؒ نے عرض کیا کہ جنید۔ آپ کے لئے زکوٰۃ کی رقم لے کر آیا ہے لیکن اُنہوں نے پھر اِنکار کر دیا‘جس پر حضرت جنید بغدادی ؒنے کہا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپؒ کے اُوپر فضل اور میرے والد ِ گرامی کے ساتھ عدل کیا۔ اَب آپ کو اِختیار ہے کہ یہ رقم لیں یا نہ لیں کیونکہ میرے والد ِ گرامی کے لئے جو حکم تھا کہ حقدار کو زکوٰۃ پیش کرو‘ وہ اُنہوں نے پورا کر دیا۔یہ بات سن کر حضرت سری سقطی ؒنے دروازہ کھول کر فرمایا کہ رقم سے پہلے میں تجھے قبول کرتا ہوں۔چنانچہ اُسی دن سے آپؒ اُن کی خدمت میں رہنے لگے اور سات سال کی عمر میں اُنہیں کے ہمراہ مکہ معظمہ پہنچے۔ وہاں چار صوفیائے کرام میں شکر کے مسئلہ پر بحث چھڑی ہوئی تھی اور جب سب شکر کی تعریف بیان کر چکے تو آپ کے ماموں نے آپ کو شکر کی تعریف بیان کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ نے کچھ دیر سر جھکائے رکھنے کے بعد فرمایا کہ شکر کی تعریف یہ ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نعمت عطا فرمائے تو اُس نعمت کی وجہ سے منعم حقیقی کی نافرمانی کبھی نہ کرے۔یہ سن کر سب لوگوں نے کہا کہ واقعی شکر اِس کا نام ہے۔ پھر آپ ؒنے بغداد شریف واپس آکر آئینہ سازی کی دکان قائم کر لی اور ایک پر دہ ڈال کر چار سو رکعت نماز یومیہ اُسی دکان میں اَدا کرتے رہے اور کچھ عرصہ کے بعد دکان کو خیر باد کہہ کر حضرت سری سقطی ؒکے مکان کے ایک حجرے میں گوشہ نشین ہو گئے اور تیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز اَدا کرتے رہے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ص ۶ ‘فارسی)
آپ ؒفرمایا کرتے تھے کہ تمام مدارج صرف فاقہ کشی‘خواہشات ترک کر دینا اور شب بیداری سے حاصل ہوئے ہیں۔فرمایا کہ صوفی وہ ہے جواللہ اور رسول اللہ ؐکی اِس طرح اِطاعت کرے کہ اُس کے ایک ہاتھ میں قرآنِ مجید ہو اور دوسرے میں حدیث ِپاک ہو۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲‘ص فارسی)
ایک مرتبہ آپؒ آشوبِ چشم میں مبتلا ہوئے تو ایک آتش پرست طبیب نے آنکھوں پر پانی نہ لگانے کی ہدایت کی‘ لیکن آپؒ نے فرمایا کہ وضو کرنا تو میرے لئے ضروری ہے اور طبیب کے جانے کے بعد وضوکر کے نماز عشاء اَدا فرما کر سو گئے اور صبح کو بیدار ہوئے تو دردِ چشم ختم ہو چکا تھا اور یہ ندا آئی کہ چونکہ تم نے ہماری عبادت کی وجہ سے آنکھوں کی پرواہ نہیں کی اِس لئے ہم نے تمہاری تکلیف کوختم کر دیا اور طبیب نے جب سوال کیا کہ ایک ہی شب میں آپؒ کی آنکھیں کس طرح اَچھی ہو گئیں تو فرمایا کہ وضو کرنے سے یہ سن کر اُس نے کہا کہ در حقیقت میں مریض تھا اور آپؒ طبیب۔ یہ کہہ کر مسلمان ہو گیا۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲‘ص ۷۱ فارسی)
کسی نے آپؒ سے عرض کیا کہ موجودہ دَور میں دینی بھائیوں کی قلت ہے۔ آپ ؒنے فرمایا کہ اگر تمہارے خیال میں دینی بھائی صرف وہ ہیں جو تمہاری مشکلات کو حل کر سکیں تب تو یقیناً وہ نایاب ہیں اور اگر تم حقیقی دینی بھائیوں کا فقدان تصور کرتے ہو تو تم صحیح نہیں کہہ رہے‘ اِس لئے کہ برادرِدینی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ جن کی دشواریوں کا حل تمہارے پاس ہو اور اُن کے تمام اُمور میں تمہاری اِعانت شامل ہو اور اَیسے برادرِدینی کافقدان نہیں ہے۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲‘ ص ۷۱ ‘ فارسی)
کسی نے پانچ سو دینار آپؒ کی خدمت میں پیش کئے تو پوچھا کہ تمہارے پاس اور رقم بھی ہے اُس نے جب اَثبات میں جواب دیا تو پوچھا کہ مزید مال کی حاجت ہے؟ اُس نے کہا کہ ہاں۔ آپ ؒنے فرمایا: اپنے پانچ سو دینار واپس لے جا کیوں کہ تو اِس کے لئے مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن مجھے حاجت نہیں اور تیرے پاس مزید رقم موجود ہے پھر بھی تو محتاج ہے۔
آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ اِخلاص کی تعلیم میں نے حجام سے حاصل کی ہے۔ اور واقعہ اِس طرح پیش آیا کہ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ایک حجام کسی دولت مند کی حجامت بنا رہا تھا تو میں نے اُس سے کہا کہ اللہ کے لئے میری حجامت بنا دے۔اُس نے فوراً اُس دولت مند کی حجامت چھوڑ کر میرے بال کاٹنے شروع کر دئیے اور حجامت بنانے کے بعد ایک کاغذ کی پڑیا میرے ہاتھ میں دے دی جس میں کچھ ریزگاری لپٹی ہوئی تھی اور مجھ سے کہا کہ آپ اِس کو اپنے خرچ میں لائیں وہ پڑیالے کر میں نے نیّت کر لی کہ َاب پہلے مجھے جو کچھ دستیاب ہو گا وہ میں حجام کی نذر کروں گا۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ایک شخص نے بصرہ میں اشرفیوں سے لبریز تھیلی مجھ کو پیش کی ‘وہ لے کر جب حجام کے پاس پہنچا تو اُس نے کہا کہ میں نے تو تمہاری خدمت صرف اللہ کے لئے کی تھی اور تم مجھے تھیلی پیش کرنے آئے ہو؟کیا تمہیں اِس کا علم نہیں کہ اللہ ل کے واسطے کام کرنے والا کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتا۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص۸۱ ‘ فارسی)
کسی عورت نے اپنے گم شدہ لڑکے کے مل جانے کی دُعا کے لئے آپؒ سے عرض کیا تو فرمایا کہ صبر سے کام لو۔یہ سن کر وہ چلی گئی اور کچھ روز صبر کرنے کے بعد پھر خدمت میں حاضر ہوئی‘لیکن پھر آپؒ نے صبر کی تلقین فرمائی وہ عورت واپس ہو گئی اور جب طاقتِ صبر بالکل نہ رہی تو پھر حاضر ہو کر عرض کیا کہ اب تابِ صبر بھی نہیں ہے۔آپ ؒنے فرمایا کہ اگر تیرا قول صحیح ہے تو جا تیرا بیٹا تجھے مل گیا۔چنانچہ جب وہ گھر پہنچی تو بیٹا موجود تھا۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص ۰۲ ‘ فارسی)
کسی مرید کے قلب میں وسوسۂ شیطانی پیدا ہو گیا کہ اب میں کامل بزرگ ہو گیا ہوں اور مجھے صحبتِ مرشد کی حاجت نہیں اور اِس خیال کے تحت جب وہ گوشہ نشین ہو گیا تو رات کو خوابوں میں دیکھا کرتا کہ ملائکہ اُونٹ پر سوار کر کے جنت میں سیر کرانے لے جاتے ہیں اور جب یہ بات شہرت کو پہنچ گئی تو ایک دن آپؒ بھی اُس کے پاس پہنچ گئے اور فرمایا کہ آج رات کو جب تم جنت میں پہنچو تو لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِo پڑھنا۔چنانچہ اُس نے جب آپؒ کے حکم کی تعمیل کی تو دیکھا کہ شیاطین تو فرار ہو گئے اور اُن کی جگہ مُردوں کی ہڈیاں پڑی ہیں۔یہ دیکھ کر وہ تائب ہو گیا اور آپؒ کی صحبت اِختیار کر کے یہ طے کر لیا کہ مرید کے لئے گوشہ نشینی سم قاتل ہے۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص ۰۳‘ فارسی)
ایک مرید سے مؤدب ہونے کی وجہ سے آپؒ کو بہت اُنس تھا جس کی وجہ سے دوسرے مریدین کو رشک پیدا ہو گیا۔ چنانچہ آپؒ نے ہر مرید کو ایک مرغ اور ایک چاقو دے کر یہ حکم فرمایا کہ اَیسی جگہ جا کر ذبح کرو کہ کوئی دیکھ نہ سکے کچھ وقفہ کے بعد تمام مریدین تو ذبح شدہ مرغ لے کر حاضر ہو گئے لیکن وہ مرید زندہ مرغ لئے ہوئے آیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی اَیسی جگہ نہیں ملی جہاں اللہ موجود نہیں تھا۔یہ کیفیت دیکھ کر تمام مریدین اپنے رشک سے تائب ہوگئے۔
(۰۲؎ تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص ۵۳‘ فارسی)
فرمایا کہ خطرے کی چار قسمیں ہیں۔ اوّل خطرئہ حق جس سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔دوم خطرئہ ملائکہ جس سے عبادت کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔سوم خطرئہ نفس جس سے دُنیا میں مبتلا ہو جاتا ہے اورچہارم خطرئہ ابلیس جس سے بغض وعناد جنم لیتے ہیں۔فرمایا کہ چار ہزار خدا رسیدہ بزرگوں کا یہ قول ہے کہ عبادتِ اِلٰہی اِس طرح کرنی چاہئے کہ اللہ کے سوا کسی کا خیال تک نہ آئے۔ فرمایا کہ تصوف کا ماخذا صطفا ہے اِس لئے برگزیدہ ہستی ہی کو صوفی کہا جاتا ہے اور صوفی وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خلیل ہونے کا درس لے‘حضرت اسماعیل علیہ السلام سے تسلیم کا درس لے‘ حضرت داؤد علیہ السلام سے غم کا درس لے‘حضرت ایوب علیہ السلام سے صبر کا درس لے ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شوق کا درس لے اور حضور اکرمﷺ سے اِخلاص کا درس حاصل کرے۔فرمایا کہ اللہ کے علاوہ ہر شے کو چھوڑ کر خودکو فنا کر لینے کا نام تصوف ہے اور آپ کے ایک اِرادت مندکا قول یہ ہے کہ صوفی اُس کو کہتے ہیں جو اپنے تمام اَوصاف کو ختم کر کے اللہ کو پالے۔فرمایا کہ عارف سے تمام حجابات ختم کر دئیے جاتے ہیں اور عارف رموزِخداوندی سے آگاہ ہوتا ہے۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص ۷۳ ‘فارسی)
فرمایا کہ اِخلاص کی تعریف یہ ہے کہ اپنے بہترین اَعمال کو قابلِ قبول تصور نہ کرتے ہوئے نفس کو فنا کر ڈالے اور شفقت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی پسندیدہ شے دوسرے کے حوالے کر کے اِحسان نہ جتائے۔فرمایا کہ جو درویش اللہ کی رضا پر راضی رہے‘ وہ سب سے برتر ہے۔ اور اَیسے لوگوں کی صحبت اِختیارکرنی چاہئے جو اِحسان کر کے بھول جاتے ہیں اور تمام لغزشوں کو نظر اَنداز کرتے رہیں۔فرمایا کہ بندہ وہی ہے جو اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرے۔پھر فرمایا کہ مرید وہ ہے جو اپنے علم کا نگران رہے اور مراد وہ ہے جس کو اِعانتِ اِلٰہی حاصل ہو کیونکہ مرید تو دوڑنے والا ہوتا ہے اور دوڑنے والا کبھی اُڑنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔فرمایا کہ ترکِ دُنیا سے عقبیٰ مل جاتی ہے۔پھر فرمایا کہ تواضع نام ہے سرجھکا کر رکھنے اور زمین پرسونے کا۔فرمایا کہ حجابات کی چھ قسمیں ہیں۔تین عام بندوں کے لئے اوّل نفس‘دوم مخلوق اورسوم دُنیا اور تین خاص بندوں کے لئے اوّل عبادت‘دوم اجر اورسوم کرامات پر اِظہار۔ فرمایا کہ حلال سے حرام کی جانب متوجہ ہونا اہل دُنیا کی لغزش ہے اور فناء سے بقا ء کی طرف رجوع کرنا زہاد کی لغزش ہے۔فرمایا کہ قلبِ مومن دن میں ستر مرتبہ گردش کرتا ہے لیکن قلبِ کافر ستر برس میں ایک مرتبہ بھی گردش نہیں کرتا۔ آپؒ اپنی مناجات اِس طرح شروع کرتے کہ اے اللہ! روزِ محشر مجھے اَندھا کر کے اُٹھانا اِس لئے کہ جس کو تیرا دیدار نصیب نہ ہو اُس کا نابینا رہنا اِس لئے اَولیٰ ہے کہ وہ کسی دوسری شے کو بھی نہ دیکھ سکے۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص۴۳‘فارسی)
دَمِ مرگ میں آپؒ نے لوگوں سے فرمایا کہ مجھ کو وضو کروا دو۔چنانچہ دَورانِ وضو اُنگلیوں میں خلال کرنا بھول گئے تو آپؒ کی یاددہانی پر خلال کر دیا گیا۔اِس کے بعد آپ ؒنے سجدے میں گر کر گریہ وزاری شروع کر دی اور جب لوگوں نے سوال کیا کہ آپؒ اِس قدر عابد ہو کر کیوںروتے ہیں؟فرمایا کہ اِس وقت سے زیادہ میں کبھی محتاج نہیں۔پھر تلاوتِ قرآنِ مجید میں مشغول ہو کر فرمایا کہ اِس وقت قرآنِ مجید سے زیادہ میرا کوئی مونس وہمدم نہیں اور اِس وقت میں اپنی عمر بھر کی عبادت کو اِس طرح ہوا میں معلق دیکھ رہا ہوں کہ جس کو تیزوتندہوا کے جھونکے ہلارہے ہیں اور مجھے یہ علم نہیں کہ یہ ہوافراق کی ہے یا وصال کی اور دوسری طرف فرشتہ ٔ اَجل اور پل صراط ہے اور میں عادل قاضی پر نظریں لگائے ہوئے اُس کا منتظرہوں کہ نہ جانے مجھ کو کدھر جانے کا حکم دیا جائے۔اِسی طرح آپ ؒنے سورۃالبقرہ کی ستر آیاتِ مبارکہ تلاوت فرمائیں اور عالم سکرات میں جب لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ اللہ کیجئے تو فرمایا کہ میں اِس کی طرف سے غافل نہیں ہوں۔ پھر اُنگلیوں پر وظیفہ خوانی شروع کردی اور جب داہنے ہاتھ کی اُنگشت ِشہادت پر پہنچے تو اُنگلی اُوپر اُٹھا کر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑی اور آنکھیں بند کرتے ہی روحِ قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص۵۳‘ فارسی)
کسی بزرگ نے خواب میں آپ ؒسے پوچھا کہ منکر نکیر کو آپؒ نے کیا جواب دیا؟ فرمایا کہ جب اُنہوں نے پوچھا کہ مَنْ رَبُّکَ تو میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں ازل ہی میں اَلْسَتُ بِرَبِّکّمْ کا جواب بلیٰ کہہ کر دے چکا ہوں۔اِس کے لئے غلاموں کا جواب دینا کیا دشوار ہے۔ چنانچہ نکیرین جواب سن کر یہ کہتے ہوئے چل دئیے کہ اَبھی تک اِس پر خمارِ محبت کا اَثر موجود ہے۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص ۶۳‘ فارسی)
کسی بزرگ نے خواب میں آپؒ سے پوچھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیسا معاملہ کیا؟فرمایا کہ محض اپنے کرم سے بخش دیا اور اُن دو رکعت نماز کے علاوہ جو میں رات کو پڑھا کرتا تھا اور کوئی عبادت کام نہ آسکی‘آپ ؒکے مزار مبارک پر حضرت شیخ شبلی سے کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ خدا رسیدہ لوگوں کی حیات وممات دونوں مساوی ہوتی ہیں۔اِس لئے اِس مزار پر کسی مسئلہ کا جواب دینے میں ندامت محسوس کرتا ہوں کیونکہ مرنے کے بعد بھی آپؒ سے اُتنی حیاء رکھتا ہوں جتنی حیات میں تھی۔
(تذکرۃ الاولیاء جلد۲ ‘ص ۶۳‘ فارسی)
اسلام جب مکہ کی وادی ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں محصور تھا اس وقت کون اندازہ کر سکتا تھا کہ ایک دن اسی مذہب کے ماننے والے سلطنتِ روما کو پلٹ کر رکھ دیں گے، سلطنتِ فارس کو اپنے زیرِ نگیں کر لیں گے، ان کی تھوڑی تعداد بھی زیادہ پر غالب ہوگی، اس وقت کون جانتا تھا کہ کثیر قلیل کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے- وہ جنہیں اونٹ چرانے کی مہارت نہ تھی وہ انسانیت کی قیادت کے قابل بن جائیں گے، وہ جو اونٹ چرانے ، پانی پلانے ، گھوڑا دوڑانے پر عداوتوں کی صدیاں گزار دیا کرتے تھے وہ محبت کے ایسے پیکر بن جائیں گے کہ نفرت کا ایک سانس لینا ان کے لیے دشوار بن جائے گا۔
یہ سب نبی پاک ﴿ﷺ﴾ کی صحبت، قربت ، تعلیم اور اخلاقیات کا پڑھایا ہوا سبقِ اسلام تھا جس نے جس دل میں گھر کیا پھر وہ کبھی فتنوں کا مرکز نہ بنا، عداوتوں کا قلعہ نہ بنا - یہ قرآن کی آفاقی آیات تھیں جس نے جہالت و ظلمت کی تاریک دلوں میں جستجو اور تحقیق کے چراغ روشن کر دیئے۔
صرف چند صدیوں نے ہی دیکھتے دیکھتے وقت کے ایسے نابغہ روزگار پیدا کر دیئے کہ محسوس ہوتا تھا کہ قحط الرجال کبھی انسانیت کا مسئلہ ہی نہیں رہا- دوسری صدی ہجری کے ربع آخر سے لے کر تیسری صدی ہجری کے وسط تک سائنسی و علمی ترقی کا زبردست دور پوری اسلامی دنیا پھیل گیا- غرناطہ، بغداد ، دمشق ، اشبیلیہ وغیرہ میں فقید المثال علمی تحقیقی مراکز قائم ہو گئے- اور ان مراکز میں مقابلہ کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ اگر کوئی پتھر بھی ان میں آتا تو وہ جوہر بن کر نکلتا- علمی مقام میں خلافتِ راشدہ میں مولائے کائنات حضرت علی المرتضی سے لے کر امام غزالی تک پھر اس سے آگے خلافتِ عثمانیہ تک بے شمار نام گنوائے جاسکتے ہیں جس میں لٹریچر کا کمال شخصیات کے کمال کی غمازی کرتا تھا۔
اُن میں خاص کر تیسری صدی ہجری کے نصفِ آخر کی ایک نابغہ روزگار ہستی سیّدنا حضرت جنید بغدادی کی علمی و عارفانہ مساعی ناقابلِ فراموش ہیں۔
اسلام کے سائنسی و علمی عروج کی سب سے مثبت بات یہ تھی کہ اس میں تنقید برائے اصلاح تھی نہ کہ تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے مخالفت ،لیکن ساتویں صدی ہجری کے نصف اوّل کے قریب جب خلافت عباسیہ کمزور ہو کر ہلاکوں خان کے ہاتھوں ختم ہو گئی ، اسپین میں بھی مملکتیں کمزور پڑنے لگیں اور شمالی اسپین سے مسلمانوں کا اخراج ہونے لگا تو مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہو گیا یہاں تک کہ آٹھویں صدی پوری مسلمانوں میں اجتہاد کا دروازہ بندے کرنے اور تقلیدی نظریات کو عام کرنے میں گزر گئی۔
بعد از زوال جو لٹریچر مرتب ہوا اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تعمیر کم اور تخریب زیادہ تھی۔اس میں وہی حصہ خاص کر قابلِ مطالعہ ہے جس میں زوال سے نکلنے کے طریقہ ہا او ر استے بیان کئے گئے ہیں، اس سلسلہ میں خاص کر اقبال کی مساعی جلیلہ کو نذر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے عالمی قنوطیت و یاسیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمع جلائی اور مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی۔ وہ امتِ مسلمہ میں اعتماد بحال کرتے ہوئے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کرنے کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں۔
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید ، تیرا جمالِ بے نقاب
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے امتِ مرحومہ میں روح ڈالنے کے لیے عزم و ہمت کی کوہِ ہمالیہ پر بسنے والی مختلف علمی و فکری شخصیات کو مسلمانوں کیلئے رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا کہ ان کی تعلیمات اور تحریک سے ہمیں زندگی کی نئی لہر مل سکتی ہے۔ان میں جہاں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین خاص کر مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد حضرت فضیل بن عیاض ؒ، حضرت بایزید بسطامی ؒحضرت حسینؒ بن منصورؒ بن حلاجؒ جیسی باکمال شخصیات کا تذکرہ ہے وہیں ان میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نمایاں ترین ہے- حضرت جنید بغدادی ؒان بزرگوں میں سے ہیں کہ جن سے علامہ کو غیر معمولی محبت اور عقیدت تھی- حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جہاں ایک علمی و فکری زوال سے نکالنے کا راستہ بتلاتے ہیں وہیں ہمیں نظریہ قائد بھی عطا کرتے ہیں۔
امام ابو نعیم اصبہانی فرماتے ہیں:
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کتاب و سنت سے مضبوط تعلق کا علم سکھایا گیا ہے۔ جو قرآن حفظ نہیں کرتا ، حدیث کی کتابت نہیں کرتا اور فقہ کا علم حاصل نہیں کرتا وہ اقتدائ کے قابل نہیں ہے۔ ﴿حلیۃ الاولیائ ، ج: ۸، ص: ۸۱۳، دار الحدیث قاہرہ﴾
کسی نے غور کیا ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسی کتاب و سنت کی پیروی کی، اسی قرآن کو حفظ فرمایا ، اسی حدیث کو لکھا اور اسی فقہ کو حاصل کیا جس کے دعوے دار ہمارے شیوخِ حرم بھی ہیں، مدارسِ مقدس بھی ہیں ،لیکن بقولِ اقبال:
دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دلِ جنید و نگاہِ غزالی و رازی
کیا وجہ ہے کہ حرم کی حرمت کے دعوے دار مکتب کی کرامتوں سے حضرت جنید ؒجیسا دل، امام غزالیؒ و امام رازی ؒجیسی نگاہ برآمد کیوں نہیں ہو رہی؟ آئیے! حضرت جنید بغدادی کی ہی ایک تحریر سے اس کا سبب اور مداوا ڈھونڈتے ہیں۔
حضرت جعفر ؒفرماتے ہیں کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بھائی کو لکھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا اشارہ کر کے کسی اَور سے تعلق بنا لے تو اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور اس کے دل سے اپنا ذکر نکال کر اس کی زبان پر جاری فرما دیتا ہے۔چنانچہ اس دوران اگر وہ سنبھل جائے اور اس سے کنارہ کر لے جس سے تعلق بنایا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت دور کرتا ہے اور آزمائش ختم کر دیتا ہے لیکن اگر وہ اس کے ساتھ وہی تعلق رکھے تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں سے اس پر مہربانی کرنا نکال دیتا ہے اور اسے لالچی بنا دیتا ہے۔ان حالات میں وہ مخلوقات سے کثیر مطالبے کرتا ہے حالانکہ ان کے دلوں سے اس کے بارے میں مہربانی نکل چکی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کی زندگی میں محتاجی آجاتی ہے، غم دین و انسانیت مر جاتا ہے، آخرت میں اس کے لیے سوا افسوس کے کچھ نہیں ہوتا۔لہٰذا ہم اللہ کے سوا کسی سے تعلق پیدا کرنے پر اللہ سے پناہ مانگتے ہیں۔( طبقات الصوفیائ للسلمی، ص :۷۱۱)
کیا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تحریر آج ہمارے زمانے کی منظر کشی نہیں، کیا اربابِ علم و دانش کے لیے اس میں کچھ درسِ عبرت نہیں ہے؟ ہم کچھ بھی نہ کریں، آج سے سے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر صرف محاسبۂ نفسی شروع کر دیں، ہمارے عرقِ انفعال کے چند قطرے ہی نہ گرنے پائیں گے کہ اس کی رحمتوں کے در وا ہو جائیں گے۔
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی
لیکن اس کے لیے اپنے دِلوں سے اس چیز کو نکال دیں جو ہمیں خدا کی نظروں میں گرا دیتی ہے- جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
﴿ما من شیئ اسقط للعلمائ من عین اللہ من مساکنۃ الطمع مع العلم فی قلوبھم﴾
﴿حلیۃ الاولیائ ج: ۸، ص: ۵۲۳، قاہرہ﴾
جو چیز علما کو اللہ کی نظروں میں گرا دیتی ہے وہ طمع ہے جو علما علم کے ساتھ اپنے دل میں بٹھا لیتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور قول مبارک ہے:
﴿لو اقبل صادق علی اللّٰہ الف الف سنۃ ثم اعرض عنہ لحظۃ کان ما فاتہ اکثر مما نالہ﴾
﴿ایضاً ، ج: ۸، ص: ۹۳۳﴾
اگر ایک عارف صادق دس لاکھ مرتبہ اللہ کی طرف متوجہ ہوا ہو اور پھر ایک لحظہ دم بھرکے لیے بھی اس سے منہ پھیرا یا غافل ہوا تو جو کچھ اس نے دس لاکھ مرتبہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے حاصل کیا اس سے زیادہ وہ اپنا نقصان کر بیٹھے گا۔
اسی بات کو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
جو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ ہمیں نہ صرف اپنے زوال سے نکلنے بلکہ پوری انسانیت کی حفاظت کرنے کی ایک ترکیب بتاتے ہیں کہ:
اِسی میں حفاظت ہے انسانیّت کی
کہ ہوں ایک جُنّیدی و اُردشیری
جنیدی کیا چیز ہے اور یہ معاشرے کے لیے کیوں اتنی اہم ہے؟ جنیدی کی ایک جھلک آپ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کی زبانی ملاحظہ فرمائیں- جناب ابن علوان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
مَیں ایک مرتبہ رحبہ بازار میں کسی کام کی خاطر گیا- وہاں ایک جنازہ دیکھا تو اس کے ساتھ ہو گیا تاکہ جنازہ پڑھوں، جنازہ سے فارغ ہو کر مَیں وہاں کھڑا رہا حتی کہ میت کو دفن کر دیا گیا۔ اس دوران بلا ارادہ میری نظر ایک کھلے چہرے والی عورت پڑی۔ مَیں چند لمحے اس کو دیکھتا رہا پھر میں نے ﴿انا للّٰہ و انا الیہ راجعون﴾ پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور گھر واپس لوٹ آیا۔ مجھے ایک بڑھیا نے کہا کہ کیا ہوا تمہارا چہرہ کالا ہو گیا ہے؟ مَیں نے شیشہ دیکھا تو واقعی میرا چہرہ سیاہ تھا- مَیں حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں گیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ کس وجہ سے چہرہ سیاہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بُری نظر کی وجہ سے۔ مَیں نے یہ سن کر ایک تنہائی میں جا کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اور اس سے جرم کی تلافی کا چالیس دن سوال کرتا رہا۔ پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے شیخ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں حاضری دوں تو بغداد کی طرف نکل پڑا۔ جب مَیں آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو آپؒ نے فرمایا :
اے ابو عمر! اندر آ جاو۔ تم نے ’’رحبہ‘‘ کے بازار میں گناہ کیا اور ہم بغداد میں تمہارے لیے استغفار کر رہے ہیں؎۔
﴿امام نبہانی، جامع کرامات اَولیائ ، ج:۲، ص: ۱۶﴾
ذرا اس واقعہ کی لطافت کا اندازہ کریں کہ نظرِ بد کا وہ گناہ آپؒ کے مرید سے آپ کی بارگاہ میں حاضری کے ارادے سے چالیس روز پہلے ہوا تھا پھر وہ ایک سفر کر کے آپؒ کی خدمت میں پہنچا۔ تو آپؒ اپنی لجپالی یوں نبھا رہے ہیں کہ اسی روز سے اپنے اس مرید کے لیے خدا کی بارگاہ سے اس کے گناہ کی معافی طلب فرما رہے ہیں اور وہ بھی ایسا گناہ جسے ہم خاطر میں ہی نہیں لاتے اور ’’معمول کی کارروائی‘‘ قرار دے کر ہر روز اپنے دل کا آئینہ سیاہ کرتے رہتے ہیں اور گلہ بھی کرتے ہیں کہ خدا کی رحمت کے دروازے ہماری خاطر کیوں نہیں کھلتے؟ اس سے اندازہ ہو جانا چاہے کہ ہمیں آپؒ سے نسبت و قربت اور آپؒ کی افکار و تعلیمات کی کتنی شدّت سے ضرورت ہے۔
حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شبلیؒ سے فرمایا تھا: اے ابوبکر! جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو ایک بات میں بھی تمہارے موافق ہے تو اس سے تعلق مضبوط بنا لو۔
﴿طبقات الصوفیہ للسلمی، ص: ۴۱۱﴾
یہ ہے جنیدی اور دوسری طرف ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ ایک بات میں مخالفت کرتا ہے تو ہم اس سے عمر بھر قطع تعلقی رکھتے ہیں۔
اپنے زوال سے نکلنے کیلئے ہمیں ان ہستیوں کی سیرت ، افکار اور تعلیمات کو سمجھنے اور اس پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ آج کل جو ہماری علمی دانشوری ہے اس کے بارے میں علامہ اقبال ؒنے کیا خوب کہا کہ
(کم علموں کے اجتہاد سے گزرے ہوؤں کی اقتدائ زیادہ محفوظ ہے)
ماہنامہ ’’مرآۃ العارفین‘‘ اِسی لئے اکابرینِ اسلام کی سیرت و افکار کی اشاعت کرتا ہے اور ان کے نام سے خصوصی گوشے قائم کرتا ہے تا کہ نوجوان نسل اس بھولے ہوئے سبق کو دہراتی رہے۔ مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روحانیت ہی اُمید کی کرن ہے۔
کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی ؒسفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا" :تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟" لوگوں نے کہا" : حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپؒ اس سے مل کر کیا کریں گے؟" شیخ نے جواب دیا" :ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔" مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔
شیخ بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا" :تم کون ہو؟" "میں ہوں جنید بغدادیؒ"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں،کوشش تو کرتا ہوں"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں،بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں،چھوٹا نوالہ بناتا ہوں،آہستہ آہستہ چباتا ہوں،دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا:" جو لقمہ بھی کھاتا ہوں, الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید ؒکی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا" :تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔
شیخ کے مریدوں نے کہا:" یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہےؒ"
"ہاں! دیوانہ تو ہے،مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آو ،اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادیؒ اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:" کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا"
بہلول نے کہا:" خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا:"جی ہاں جانتا تو ہوں۔
"تو بتاو، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا،سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا:"کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔"
پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا " یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے"
اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمہیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا:" جی ہاں! معلوم ہے۔
"اچھا بتاو،تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں"
یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا:" معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا:" اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔
کچھ دیر بعد بہلول نے کہا:" حضرت! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں, سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی ملاوٹ ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے, ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔
شیخ جنیؒد نے بےساختہ کہا" :جزاک اللہ خیراً " اللہ تمہارا بھلا کرے۔
پھر بہلول نے بتایا:"گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاو یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی،تمہارے لیے وبال بن جائے گی،اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔
پھر سونے کے متعلق بتایا:"اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض،کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید ؒکے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔ حضرت جنید ؒاور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں, بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے پاس کسی نے ایک پرندہ بطور تحفہ بھیجا‘ آپؒ نے اسے قبول فرما کر پنجرے میں بند کردیا اور کچھ مدت اپنے پاس رکھ کر ایک دن اسے آزاد کردیا۔ کسی نے پوچھا:’’حضرت آپ نے اسے آزاد کیوں کردیا؟‘‘ آپؒ نے فرمایا:’’مجھ سے اس پرندے نے بڑی منت سے کہا تھا اے جنید! افسوس ہے کہ تُو تو اپنے دوستوں سے ملاقات کا لطف اٹھائے اور مجھے میرے دوستوں سےملنے سے دور رکھے اور پنجرے میں بند رکھے۔‘‘مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا‘ اڑتے وقت وہ کہنے لگا: ’’پرندہ یا جانور جب تک اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے آزاد رہتا ہے اور جہاں اس پر غفلت طاری ہوتی ہے قید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘اے جنید!میں یادِ الٰہی سے صرف ایک دن غافل رہا تھا جس کی سزا میں مجھے پنجرے کی سخت سزا بھگتنا پڑی۔ ہائے ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اکثر اوقات اللہ کے ذکر سے غافل رہتے ہیں۔ اے جنیدؒ میں آپ کے سامنے پکا وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ذکر الٰہی سے غافل نہیں رہوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پرندہ اڑ گیا۔پھر وہ پرندہ حضرت جنید بغدادیؒ کی زیارت کے لیے آتا اور ان کے ہمراہ دستر خوان پر دانے وغیرہ بھی کھایا کرتا‘ جب حضرت جنید بغدادیؒ کی وفات ہوئ تو یہ پرندہ بھی زمین پر گر کر اسی وقت مرگیا، اسلیئے لوگوں نے جنید بغدادیؒ کے قریب اس پرندے کو دفن کیا بعد وصال کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: ’’آپؒ کا کیا حال ہے؟‘‘انہوں نے جواب دیا: ’’چونکہ اس پرندے پر میں نے رحم کیا تھا‘ اس لیے اللہ نے مجھ پر بھی رحم کیا۔
* بروز جمعۃ المبارک 27 رجب المرجب 297ھ کو واصل بااللہ ہوئے۔ مزار مبارک مقامِ ’’شونیزیہ‘‘ بغدادِ معلیٰ میں مرجعِ خلائق ہے۔
تحصیلِ علم: آپ رحمۃ اللہ علیہ ابتدا سے ہی نہایت ذہین و فطین تھے۔ بہت قلیل عرصے میں ہی آپؒ نےتمام علوم ِعقلیہ و نقلیہ پر مہارتِ تامہ حاصل کرلی تھی۔ اکثر اپنے ماموں حضرت شیخ سری سقطی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض ِصحبت سے مستفیض ہوا کرتے، اور فقہ کےمشہور شافعی فقیہ شیخ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبیؒ(تلمیذ حضرت امام شافعیؒ)سے حاصل کی جو بغداد کے اَجِلہ فقہاء و مشاہیر علماء سے تھے۔ ان سے فقہ شافعی میں کمال حاصل کیا، اور ان کی زیر نگرانی فتویٰ جاری کیا۔ اُس وقت آپؒ کی عمر بیس سال تھی۔ جوانی میں ہی آپؒ کے علم کا چرچا عام ہوگیا تھا۔ حضرت سری سقطیؒ، شیخ ابو ثور ابراہیمؒ، شیخ حارث محاسبیؒ، محمد بن ابراہیم بغدادیؒ، ابو جعفر محمد بن علی قصابؒ، بشر بن حارثؒ، کے علاوہ آپ ؒنے ایک سو بیس سے زائد علماء و شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ فرمایا۔
نیز شیخ ابوبکر کسائی رحمہ اللہ علیہ اور آپؒ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مراسلہ(خط و کتابت) ہوا تھا ۔آپ ؒنے سب کے جواب لکھے۔کسائی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔
*(شریف التواریخ،ج1،ص530)*
میرے پیر حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے دعا دی کہاا ﷲتعالیٰ تمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:
علمنا مضبوط بالكتاب والسنة من لم يحفظ الكتاب ، ويكتب الحديث ، ولم يتفقه لا يقتدى بہ۔
’’ یعنی جس نے نہ قرآن یاد کیا نہ حدیث لکھی یعنی جو علم شریعت سے آگاہ نہیں طریقت میں اس کی اقتداء نہ کریں اور اسے اپنا پیر نہ بنائیں کیونکہ ہمارا یہ علمِ طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے‘‘۔
نیز فرمایا:
خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول ﷲﷺکے نشانِ قدم (سنت) کی پیروی کرے۔
*(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص53)*